مغل بادشاہ ازبکستان کے علاقے فرغانہ سے ہندوستان آئے تھے‘ فرغانہ ٹھنڈا علاقہ ہے‘ سردیوں میں یہاں شدید برف باری ہوتی ہے اور گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ ہوتا ہے‘فرغانہ کی دھوپ بھی چبھنے والی نہیں ہوتی‘ وادی میں ندیاں اور چشمے بہتے رہتے ہیں‘ یہ پورا علاقہ پھلوں کا گھر کہلاتا ہے‘ اس کے انار‘ انگور‘ خربوزے‘ تربوز‘ چیری‘ ناشپاتیاں‘ خوبانیاں اور آڑو پورے سنٹرل ایشیا میں مشہور ہیں جب کہ ہندوستان ان نعمتوں سے محروم تھا‘
آج سے پانچ سو سال پہلے تک یہاں اچھے پھل ہوتے تھے اور نہ ندیاں اور جھرنے‘ دریا بھی بے ہنگم‘ خوف ناک اور سیلابی تھے‘ گرمی خوف ناک پڑتی تھی‘ جلد تک جل جاتی تھی جب کہ سردیاں خشک اور بیماریوں سے لبریز ہوتی تھیں اورپیچھے رہ گیا مون سون تو اللہ معاف کرے‘ پورا ہندوستان حبس میں لو کی دعائیں کرتا تھا‘ مون سون کے بعد ملیریا پھیلتا تھا اوروہ ہر سال لاکھوں لوگوں کی جان لے لیتا تھا اور جو بچ جاتے تھے وہ ڈائیریا کا شکار ہو جاتے تھے اور ان کے دن اور راتیں کھیتوں میں گزرتی تھیں‘مغل بدقسمتی کا مقابلہ کرتے کرتے ہندوستان آ گئے لیکن وہ پوری زندگی فرغانہ کو یاد کرتے رہے‘ بابر کو ہندوستان سے تین بڑے شکوے تھے‘ ان میں سب سے بڑا شکوہ برف کی کمی تھی‘ مغل پوری زندگی گرمیوں میں ٹھنڈا پانی تلاش کرتے رہے مگر ان کی حسرت پوری نہ ہو سکی تاہم یہ گرمیوں میں سری نگر شفٹ ہو جاتے تھے‘ چند ماہ کھلی فضا میں گزارتے تھے اور مون سون کے بعد دہلی اور آگرہ واپس آ جاتے تھے‘
بادشاہ گرمیوں کے آغاز میں جب سری نگر جاتا تھا تو اس کے لشکر کے آگے تین چار سوآب بردار چلتے تھے‘ ان کے ہاتھوں میں پانی سے بھرے گھڑے ہوتے تھے اور وہ ان گھڑوں کو ہلاتے ہوئے چلتے تھے‘ اس پراسیس کے ذریعے پانی ٹھنڈا ہو جاتا تھا اور اس پانی سے بادشاہ سلامت غسل کرتے تھے اور بوقت ضرورت اسے نوش فرماتے تھے‘ شاہ جہاں کے لیے کشمیر سے برف بھی منگوائی جاتی تھی‘ اس کے لیے باقاعدہ ہیومین چین بنائی گئی تھی‘ یہ چین کشمیر سے آگرہ تک تھی‘ برف کی سلیں پٹ سن میں لپیٹ کر گھوڑوں پر لادی جاتی تھیں‘ دو تین کلو میٹر بعد گھوڑے اور سوار بدل جاتے تھے اور یوں یہ برف پگھلنے سے پہلے آگرہ پہنچ جاتی تھی‘ برف کو بادشاہ تک پہنچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کیے جاتے ہوں گے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘
اس زمانے میں بادشاہ مکمل بادشاہ ہوتے تھے‘ ان کا حکم آخری حکم سمجھا جاتا تھا اور اسے بجا لانا پورے ملک پر لازم ہوتا تھا‘ شاہ جہاں نے برف لانے کا حکم دے دیا اور پھر یہ برف روزانہ اس تک پہنچتی رہی‘ یہ سلسلہ اورنگزیب کے دور تک جاری رہا‘ اس کے بعد مقامی سطح پر برف بنانے کا طریقہ ایجاد ہو گیا‘ خادم کورے گھڑے محل کی چھت پر رکھ دیا کرتے تھے‘ ان پر اوس کی باریک سی تہہ جم جاتی تھی‘ اسے کھرچ کر جمع کر لیا جاتا تھا‘ تین چار سو گھڑوں کی کھرچن سے برف کا ایک گولہ بن جاتا تھا اور وہ گولہ بادشاہ کو پیش کر دیا جاتا تھا‘ اس ایک چھوٹے سے گولے کے لیے کتنے گھڑے‘ کتنے خادم اور کتنے کھرچاوے ہوتے ہوں گے؟ آپ تصور کر سکتے ہیں مگر یہ لوگ بادشاہ کا کنسرن نہیں ہوتے تھے‘ ان کا کام صرف حکم کرنا تھا اور بس‘ آپ مغل بادشاہوں کی طاقت کا اندازہ کیجیے‘ شاہ جہاں کی ملکہ 14 ویں زچگی کے دوران انتقال کر گئی‘ بادشاہ نے اس کی یاد میں دنیا کا سب سے مہنگا‘ خوب صورت اور بڑا محل بنانے کا حکم دے دیا اورآرکی ٹیکٹ شیراز‘ مستری ترکی اور گنبدساز اٹلی سے منگوالیے گئے اور یوں تاج محل بن گیا‘
یہ ہندوستان کی پہلی عمارت تھی جس میں گنبد تھے‘ یہ گنبد اٹلی کے ان ماہرین نے بنائے تھے جنہوں نے ویٹی کن سٹی کے ڈوم بنائے تھے‘ تاج محل پر اتنی رقم خرچ ہو گئی جس کے بعد ہندوستان اور مغل سنبھل نہیں سکے اور یوں دنیا سے آہستہ آہستہ مغل سلطنت کا صفایا ہو گیا اور یہ تماشا صرف ہندوستان تک محدود نہیں تھا بلکہ دنیا کے جس خطے میں بھی بادشاہت تھی وہاں یہی سرکس چلتی رہی ‘وہاں بھی عوام بادشاہ کے غلام ہوتے تھے اور وہ سب مل کر جہاں پناہ کی خواہشات‘ حماقتوں اورانا کو گنے کا رس پلاتے رہتے تھے‘ جنگوں کافیصلہ بھی بادشاہ کرتا تھا اور ان میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے جاتے تھے شاید اس سرکس سے بچنے کے لیے قوموں نے بادشاہوں سے جان چھڑائی‘ انسان نے ہزاروں سال کے تجربے سے سیکھا دنیا میں جب تک بادشاہ رہیں گے اس وقت تک امن‘ خوش حالی اور انسانی حقوق ممکن نہیںہوں گے لہٰذا سماج جمہوریت کی طرف آنے پر مجبور ہو گیا۔
بادشاہت اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ بادشاہت میں سلطنت کے تمام وسائل شاہی خاندان کے لیے ہوتے ہیں جب کہ جمہوریت میں عوام سسٹم چلانے اور اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی کے حکمران لے آتے ہیں‘ حکمران آتے ہیں اور خود کو عوام کے لیے وقف کر دیتے ہیں‘ اس دوران اگر عوام کو ان سے بہتر شخص مل جائے تو یہ پہلے لوگوں کو فیئرویل دے کر اسے کرسی پر بیٹھا دیتے تھے‘ بادشاہ تاحیات ہوتا ہے جب کہ صدر اور وزیراعظم مخصوص مدت کے لیے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہے نہیں‘ اس ملک میں آج بھی بادشاہت قائم ہے اور ان بادشاہوں نے مغل بادشاہوں کی طرح عوام کو اپنی خدمت پر لگا رکھا ہے‘ آپ ملک کے معاشی حالات دیکھ لیجیے‘ ہم آج بھی ڈیفالٹ کے کنارے کھڑے ہیں اور اگر خدانخواستہ ہم ڈیفالٹ کر گئے تو ہم دنیا میںپہلی ڈیفالٹ نیوکلیئر پاور ہوں گے اور اس کے بعد ہمیں بم دے کر آٹا لینا پڑے گا اور اگر ایک بار ہم سے ایٹم بم نکل گیا تو پھر نریندر مودی ہمارے ساتھ وہ سلوک کرے گا جس کا سوچ کر بھی سوچ کو پسینہ آ جاتا ہے لیکن بادشاہت ملاحظہ کیجیے‘ ان حالات میں بھی حکومت نے حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ کر دیا‘
ایوان صدر کا بجٹ بھی ایک ارب گیارہ کروڑ روپے بڑھا دیا گیا جبکہ وزیراعظم ہائوس کے لیے 31 کروڑ32 لاکھ روپے کا اضافہ کر دیا گیا‘ آج بھی وفاق میں 17 ایسی وزارتیں اور محکمے موجود ہیں جن کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں اور یہ محکمے اور یہ وزارتیں ہر سال کھربوں روپے چوس جاتی ہیں‘یہ جونکیں ہیں اور حکومت نے ان جونکوں کے لیے تنخواہ دار طبقے کو مکمل تباہ کر دیا‘تنخواہ دار 35 فیصد تک ٹیکس دیتے تھے‘ اس ٹیکس کو اب دونوں کانوں سے پکڑ کر 70 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے‘ آپ اگر بجٹ کا ڈاکومنٹ پڑھیں تو اس میں آپ کو ’’رننگ آف دی سول گورنمنٹ‘‘ کے سامنے 839 ارب روپے لکھا ملے گا‘ یہ رقم پچھلے سال 714ارب روپے تھی گویا اس میں بھی 14فیصد اضافہ کر دیا گیا‘ وفاقی حکومت میں 36 وزارتیں‘ چار درجن ڈویژن اور 400 منسلک ادارے ہیں‘ ہم نے 2014ء میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد 17 وزارتیں صوبوں کے حوالے کر دی تھیں‘ اس کے بعد اصولی طور پر وفاق سے 17 وزارتیں اور ان سے منسلک ادارے اور ڈویژنز ختم ہو جانی چاہیے تھیں لیکن دس سال گزرنے کے باوجود یہ آج بھی قائم ہیں‘
حکومت صرف ان کو بند کر کے سول گورنمنٹ کے اخراجات کو 839 ارب سے 439 ارب روپے پر لا سکتی ہے مگر یہ کام نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ سیدھی بات ہے حکومت اگر یہ کرے گی تو پھر یہ اعظم نذیر تارڑ‘ عطاء تارڑ اور رانا تنویر کو کہاں کھپائے گی؟ وفاقی حکومت کے 20 اضافی وزراء کیا کریں گے؟ چناں چہ حکومت اپنی انا کی تسکین اور اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے لیے ہر سال چار سو ارب روپے بھٹی میں جھونک دیتی ہے‘ حکومت بار بار دعویٰ کرتی ہے‘ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور ہمارے پاس اگر ٹیکس جمع نہیں ہو گا تو ہم عوام کی خدمت کیسے کر سکیں گے وغیرہ وغیرہ جب کہ حقیقت یہ ہے 2010ء سے لے کر 2024ء تک گزشتہ 14برسوں میں ٹیکس کولیکشن میں 973 فیصد اضافہ ہوا‘ 2010ء میں ہرپاکستانی خاندان 54 ہزار روپے سالانہ حکومت کو دیتا تھا ‘ یہ اب ہر سال ساڑھے چار لاکھ روپے حکومت کو ادا کر رہا ہے اور اس کے باوجود حکومت کی تسکین نہیں ہو رہی‘ ہم ہر سال ہزار ارب روپے سے زیادہ رقم200 بیمار کارپوریشنز میں جھونک دیتے ہیں‘ آخر اس ملک کو پی ٹی وی‘ پی آئی اے‘پی ایس او‘ سٹیل مل‘ پاکستان ریلوے اورسوئی سدرن اور ناردرن کی کیا ضرورت ہے؟اگر زراعت کے محکمے صوبوں کے پاس ہیں تو ہم نے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کیوں بنا رکھی ہے اور یہ اربوں روپے سالانہ کیوں ضائع کرتی ہے؟۔
ہمیں ماننا پڑے گا دنیا میں بادشاہت ختم ہو چکی ہے‘ امریکا میں اگر فرشتہ بھی صدر بن جائے تو وہ بھی دو ٹرمز کے بعد گھر چلا جائے گا اور لوگ اس کی شکل اور نام تک بھول جائیں گے‘ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر جیسی وزیراعظم بھی گوشہ گم نامی میں فوت ہو جاتی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی بادشاہت قائم ہے اور ان بادشاہوں نے آپس میں صوبے تقسیم کر رکھے ہیں‘ یہ عوام کا خون نچوڑتے ہیں اور پھر اسے اپنے خاندان اوراپنے دوست احباب میں تقسیم کردیتے ہیں‘ آپ آج وفاقی کابینہ کی فہرست نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو چار پانچ لوگوں کے علاوہ کوئی شخص کسی وزارت کا ایکسپرٹ نہیں ملے گا‘ یہ تمام لوگ جہاں پناہ کے خاندان کے وفادار اور خوشامدی ہیں اور یہ صرف اس کوالی فکیشن کی وجہ سے مغلیہ خاندان کی تمام سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں ورنہ کیا یہ حقیقت نہیں اٹک کے پل سے لے کر لاہور تک ن لیگ کی صرف ایک سیٹ تھی اور وہ بھی احسن اقبال نے جیتی تھی‘ باقی سب فارم 47 ہیں اور اس فارم نے بھی عمران خان کی ضد سے جنم لیا‘ اگر یہ اتنے ضدی نہ ہوتے تو آج ان لوگوں کا نام تک مٹ چکا ہوتا‘ بہرحال ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا ہم عوام نے حکومت رکھی ہوئی ہے یا پھر حکومت نے ہم عوام کو اپنی خدمت کے لیے رکھا ہوا ہے‘ہم عوام سارا دن گھڑے پلائیں گے اور بادشاہ سلامت ٹھنڈا پانی پئیں گے اگر ایسا ہے تو پھر مبارک ہو‘ ہم کام یاب ہو چکے ہیں ۔
نوٹ:ہمارا گروپ 18جولائی سے ہنزہ جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
The post مبارک ہو appeared first on Javed Chaudhry Columns.
from Javed Chaudhry Columns https://ift.tt/erUsXw1
No comments:
Post a Comment